ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ
عارض ہے قمر خورشید جبیں شب زلف سحر ہے پرتو رخ
آنکھوں میں ہوا ہے گھر تیرا دل کہتا ہے رکھ ہر دم پردہ
ہو چشم تمنا کیوں کر وا عاشق کی نظر ہے پرتو رخ
جب مد نظر اغیار تھے واں تاریک تھا یاں آنکھوں میں جہاں
روشن ہے چراغ روح رواں کیا آج ادھر ہے پرتو رخ
کی فکر مگر باعث نہ کھلا اے لالہ رخ بے مہر و وفا
بتلا تو یہ دل کا درد ہے کیا گر داغ جگر ہے پرتو رخ
غش کوئی کسی کو ہے سکتا ہے نور خدا تیرا جلوہ
ہو دخل ترے گھر میں کس کا یاں حاجب در ہے پرتو رخ
اٹھ عاشق مضطر سجدے کر آئی ہے شب مقصد کی سحر
وہ دیکھتے ہیں غرفے سے ادھر اے خاک بسر ہے پرتو رخ
شہرہ ہے بہار عارض کا بلبل کی طرح عاشق ہیں فدا
ہے باغ جوانی روح افزا برگ گل تر ہے پرتو رخ
جس سے ہو آنسو خون جگر بن جائے عقیق و لعل و گہر
خورشید و قمر اور سیم و زر اے جان مگر ہے پرتو رخ
بیتاب حبیبؔ مضطر ہے حیران کبھی گہ ششدر ہے
پھرتا ہے گل خورشید صفت منہ اس کا جدھر ہے پرتو رخ
غزل
ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ
حبیب موسوی