حفیظؔ وصل میں کچھ ہجر کا خیال نہ تھا
وفور عیش میں اندیشۂ مآل نہ تھا
برا ہی کیا ہے برتنا پرانی رسموں کا
کبھی شراب کا پینا بھی کیا حلال نہ تھا
نیا ہے اب کے برس کچھ بہار کا عالم
جنوں کا زور تو ایسا گزشتہ سال نہ تھا
خیال تم نے دلایا جو گزری باتوں کا
ملال اب وہ ہوا پہلے جو ملال نہ تھا
وہ دن ہیں یاد کہ برسوں تھی خود فراموشی
یہ دھن کسی کی تھی اپنا بھی کچھ خیال نہ تھا
تم آ گئے کہ مری جان بچ گئی ورنہ
کچھ آج موت کے آنے میں احتمال نہ تھا
کوئی تو وجہ مسرت ہے گو کہیں نہ کہیں
کہ یوں حفیظؔ کا چہرہ کبھی بحال نہ تھا
غزل
حفیظؔ وصل میں کچھ ہجر کا خیال نہ تھا
حفیظ جونپوری