ہدف ہوں دشمن جاں کی نظر میں رہتا ہوں
کسے خبر ہے قفس میں کہ گھر میں رہتا ہوں
ادھر ادھر کے کنارے مجھے بلاتے ہیں
مگر میں اپنی خوشی سے بھنور میں رہتا ہوں
نہ میں زمیں ہوں نہ تو آفتاب ہے پھر بھی
ترے طواف کی خاطر سفر میں رہتا ہوں
میں سایہ دار نہیں اس کے باوجود یہ دیکھ
پہن کے دھوپ تری رہ گزر میں رہتا ہوں
یہ کیسی چڑھ ہے مجھے تیرگی کے عالم سے
کہ میں چراغ ہوں لیکن سحر میں رہتا ہوں
مجھے غرض ہے فقط اس کی استقامت سے
بہار ہو کہ خزاں میں شجر میں رہتا ہوں
مجھے شناخت کرو میرے شاہکاروں میں
میں خال و خط سے زیادہ ہنر میں رہتا ہوں
غزل
ہدف ہوں دشمن جاں کی نظر میں رہتا ہوں
مختار جاوید