حبس کے دنوں میں بھی گھر سے کب نکلتے ہیں
دائرے کے اندر ہی راستے بدلتے ہیں
خون جلتا رہتا ہے گاؤں کے جوانوں کا
کارخانے شہروں کے کب دھواں اگلتے ہیں
تیرے نام کا تارا جانے کب دکھائی دے
اک جھلک کی خاطر ہم رات بھر ٹہلتے ہیں
اب سفر کوئی بھی ہو میں کہاں اکیلا ہوں
تیرے چاند سورج بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں
عین دوپہر میں بھی سر پہ تیرا سایا ہے
تجھ کو بھول جائیں تو چاندنی میں جلتے ہیں
کھل گئے ہیں پھر شاید رحمتوں کے دروازے
حادثے کہاں ورنہ ٹالنے سے ٹلتے ہیں
نیند کے نگر سے تو رابطہ نہیں ٹوٹا
فکر شعر میں سیفیؔ کروٹیں بدلتے ہیں
غزل
حبس کے دنوں میں بھی گھر سے کب نکلتے ہیں
بشیر سیفی