ہاتھ اٹھاتا ہوں میں اب دعا کے لیے
تم بھی آمین کہنا خدا کے لیے
مجھ کو اس نیم جاں دل پہ حیرت ہے جو
زندگی چاہتا ہے خطا کے لیے
آفتیں جس قدر ہو سکیں بخش دو
وقف ہے دل مرا ہر بلا کے لیے
مجھ تک آنے میں زحمت نہ ہو لاؤ میں
راہ ہموار کر دوں قضا کے لیے
نقل فریاد سے میری کیا فائدہ
کچھ اثر بھی ہو دل کی صدا کے لیے
ابتدا غم کی جب بن گئی زندگی
مجھ کو مرنا پڑا انتہا کے لیے
شوقؔ ان کے ستم کی لطافت نہ پوچھ
دل تڑپتا ہے اب تک جفا کے لیے
غزل
ہاتھ اٹھاتا ہوں میں اب دعا کے لیے
شوق سالکی