ہاتھ اس کے نہ آیا دامن ناز
عشق کو سنتے ہی تھے دست دراز
بیت ابرو ہے مخزن اسرار
خط ہے چہرے کا شرح گلشن راز
دیکھ کر چشم خون دل رونا
کہیں افشا نہ ہو کسی کا راز
کیوں نہ بدنام ہوں جہاں میں میں
دل ہے بد خواہ چشم ہے غماز
ایک دل کے لیے یہ فوج کشی
عشوہ و ناز غمزہ و انداز
جب بلاتا ایاز کو محمود
کچھ نہ کہتا سوائے بندہ نواز
جب تک اس سے نیاز دل نہ کہوں
نہیں پڑھنے کا اے رضاؔ میں نماز
غزل
ہاتھ اس کے نہ آیا دامن ناز
رضا عظیم آبادی