EN हिंदी
ہاتھ سے ہاتھ ملا دل سے طبیعت نہ ملی | شیح شیری
hath se hath mila dil se tabiat na mili

غزل

ہاتھ سے ہاتھ ملا دل سے طبیعت نہ ملی

شاد بلگوی

;

ہاتھ سے ہاتھ ملا دل سے طبیعت نہ ملی
آپ کے ساتھ مری ایک بھی عادت نہ ملی

زندگی وقف اسی کے لیے کر دی ناداں
ایک لمحہ جسے تیرے لئے فرصت نہ ملی

عیش و آرام سے کیوں کر ہمیں ملتی تسکین
جب ہمیں غم سے خوشی رنج سے راحت نہ ملی

اس کو انسان تو کہتے ہوئے شرم آتی ہے
تیری درگہ سے جسے رتی بھی غیرت نہ ملی

جوں ہی میدان میں ہم تان کے سینہ نکلے
کوئی آفت کوئی دکھ کوئی مصیبت نہ ملی

لطف آتا ہے ہمیں ظلم سے ٹکر لے کر
حشر برپا نہ ہوا ہائے قیامت نہ ملی

کون گھاٹے میں رہا فیصلہ دنیا دے گی
جس کو دولت نہ ملی یا جسے عزت نہ ملی

لاکھ بہتوں کی لگی کچھ کی لگی دس دس لاکھ
شادؔ کو پوری کسی شعر کی قیمت نہ ملی