ہاتھ سے دنیا نکلتی جائے گی
اور دنیا ہاتھ ملتی جائے گی
حسن کی رنگت بدلتی جائے گی
یہ شب مہتاب ڈھلتی جائے گی
منقلب ہوتی رہیں گی فطرتیں
زندگی کروٹ بدلتی جائے گی
ختم ہو سکتی نہیں سیر حیات
زندگی رک رک کے چلتی جائے گی
نوجوانی آرزوئیں سب لیے
گرتی جائے گی سنبھلتی جائے گی
عشق غافل زخم کھاتا جائے گا
حسن کی تلوار چلتی جائے گی
یوں ہی اک ارماں نکلتا جائے گا
یوں ہی اک حسرت مچلتی جائے گی
یوں ہی آتی جائے گی شام وصال
یوں ہی شمع بزم جلتی جائے گی
یوں ہی رخصت ہوتی جائے گی خوشی
یوں ہی صبح غم نکلتی جائے گی
یوں ہی گائے جائیں گے شعر نشورؔ
یوں ہی طبع غم بہلتی جائے گی
غزل
ہاتھ سے دنیا نکلتی جائے گی
نشور واحدی