EN हिंदी
ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ | شیح شیری
hath rakhte hi tha haal-e-qalb-e-muztar aaina

غزل

ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

;

ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ
دست نازک ہے حسینوں کا مقرر آئینہ

بن گیا غماز شکل ان کی دکھا کر آئینہ
جو ہمارا راز دل تھا اب ہے ان پر آئینہ

توڑ کر دل تم نے کھویا امتیاز حسن بھی
اک تمہارے پاس تھا یا اب ہے گھر گھر آئینہ

دیکھنا ہے کس میں اچھی شکل آتی ہے نظر
اس نے رکھا ہے مرے دل کے برابر آئینہ

آئنہ رکھو لو کہ دونا لطف آئے وقت رنج
اس طرف تم اس طرف کھینچے ہو خنجر آئینہ

عکس سے اپنے کسی کے گرم جوشی قہر تھی
رہ گیا آخر پسینے میں نہا کر آئینہ

شوق خود بینی ستم نیندیں جوانی کی غضب
بے خبر سوتے ہیں وہ رکھا ہے منہ پر آئینہ

شوخیوں سے بن گیا بجلی کسی کا عکس بھی
اب تو ہاتھوں سے نکلتا ہے تڑپ کر آئینہ

یوں کہاں ممکن تھا حسن خاص کا دیدار عام
بن گئی آخر سراپا صبح محشر آئینہ

دیکھ لیں شاید نظرؔ وہ دیدۂ انصاف سے
لے چلو ٹوٹے ہوئے دل کا بنا کر آئینہ