ہاتھ نہ آئی دنیا بھی اور عشق میں بھی گمنام رہے
سوچ کے اب شرمندہ ہیں کیوں دونوں میں ناکام رہے
اب تک اس کے دم سے اپنی خوش فہمی تو قائم ہے
اچھا ہے جو بات میں اس کی تھوڑا سا ابہام رہے
ہم نے بھی کچھ نام کیا تھا ہم کو بھی اعزاز ملے
عشق میں ہم بھی اک مدت تک مورد صد دشنام رہے
میرے پاس تو اپنے لیے بھی اکثر کوئی وقت نہ تھا
ہاں جو فراغت کے لمحے تھے تیری یاد کے نام رہے
واقف حال تو ہے وہ اپنا منصف جانبدار سہی
اس کے ہر انصاف کا لیکن میرے سر الزام رہے
آج کا دن بھی بے مصرف سی سوچوں ہی میں بیت گیا
آج کے دن بھی یوں ہی پڑے پھر گھر کے سارے کام رہے
غزل
ہاتھ نہ آئی دنیا بھی اور عشق میں بھی گمنام رہے
شبنم شکیل