EN हिंदी
ہاتھ میں اپنے ابھی تک ایک ساغر ہی تو ہے | شیح شیری
hath mein apne abhi tak ek saghar hi to hai

غزل

ہاتھ میں اپنے ابھی تک ایک ساغر ہی تو ہے

فاطمہ وصیہ جائسی

;

ہاتھ میں اپنے ابھی تک ایک ساغر ہی تو ہے
جس کو سب کہتے ہیں مے خانہ وہ اندر ہی تو ہے

دام میں طائر کو لے جاتی ہے دانے کی تلاش
پھر بھی مظلومی و محرومی مقدر ہی تو ہے

کیسی کیسی کوششیں کر لیں میان جنگ بھی
مرد میداں جو بنا ہے وہ سکندر ہی تو ہے

اپنے خالق کی عطا پر ناز ہونا چاہئے
جو حسد رکھتے ہیں ان کا حال ابتر ہی تو ہے

خاک کے ذرے چمکتے ہیں ضیائے نور سے
آسماں پر جو ہے وہ خورشید خاور ہی تو ہے

چھوڑیئے بغض و عداوت تو سمجھ میں آئے کچھ
جو وصیہؔ ہو رہا ہے تجھ کو باور ہی تو ہے