ہاتھ میں اپنے ابھی تک ایک ساغر ہی تو ہے
جس کو سب کہتے ہیں مے خانہ وہ اندر ہی تو ہے
دام میں طائر کو لے جاتی ہے دانے کی تلاش
پھر بھی مظلومی و محرومی مقدر ہی تو ہے
کیسی کیسی کوششیں کر لیں میان جنگ بھی
مرد میداں جو بنا ہے وہ سکندر ہی تو ہے
اپنے خالق کی عطا پر ناز ہونا چاہئے
جو حسد رکھتے ہیں ان کا حال ابتر ہی تو ہے
خاک کے ذرے چمکتے ہیں ضیائے نور سے
آسماں پر جو ہے وہ خورشید خاور ہی تو ہے
چھوڑیئے بغض و عداوت تو سمجھ میں آئے کچھ
جو وصیہؔ ہو رہا ہے تجھ کو باور ہی تو ہے
غزل
ہاتھ میں اپنے ابھی تک ایک ساغر ہی تو ہے
فاطمہ وصیہ جائسی