ہاتھ کیوں تھکنے لگے ہیں قاتلوں سے پوچھنا
کے بھی کیوں بولتی ہیں گردنوں سے پوچھنا
تم نے تو بس حال ہی پوچھا تھا مجھ بیمار کا
آ گئے ہیں کیوں امنڈ کر آنسوؤں سے پوچھنا
جوجھتے رہنے کا ہے سیلاب سے مفہوم کیا
کشتیوں کو کھینے والے مانجھیوں سے پوچھنا
بھوکے بچے کے لیے کیا شے ہے ممتا کی تڑپ
دودھ سے محروم ماں کی چھاتیوں سے پوچھنا
دھوپ میں پت جھڑ کی ان کا پیڑ سے رشتہ ہے کیا
سوکھے ڈنٹھل جن کے ہیں ان پتیوں سے پوچھنا
گونجتی ہے اک اکیلے ہنس کی آواز کیوں
کل ملے تھے جن پہ ہم ان ساحلوں سے پوچھنا
یاد ہے اب تک مجھے اطہرؔ کہ میرا بار بار
ان کے نقش پا کہاں ہیں راستوں سے پوچھنا
غزل
ہاتھ کیوں تھکنے لگے ہیں قاتلوں سے پوچھنا
اطہر شکیل