ہاتھ خالی سر بازار لیے پھرتی ہے
روح میں سینکڑوں آزار لیے پھرتی ہے
بے خبر ہے کہ نہیں ہاتھ میں پھوٹی کوڑی
ماں جسے گود میں بیمار لیے پھرتی ہے
ایک دوشیزہ نمائش کا سہارا لے کر
کتنے بے شکل خریدار لیے پھرتی ہے
نوچ کر اپنی حیا اوڑھ کے چہرے پہ فریب
ایک گمراہ سا کردار لیے پھرتی ہے
حسرت و یاس کو لڑیوں میں پرو کر بڑھیا
میرے بچپن سے وہی ہار لیے پھرتی ہے
کھل گیا راز ستارے ہیں بغاوت کے نشاں
رات کیوں خوف کے آثار لیے پھرتی ہے
ضبط شیوہ ہے بہ ہر حال ہمارا ورنہ
ہر زباں نوک پہ تلوار لیے پھرتی ہے

غزل
ہاتھ خالی سر بازار لیے پھرتی ہے
نقاش عابدی