EN हिंदी
ہاتھ خالی ہے کوئی کنکر اٹھا | شیح شیری
hath Khaali hai koi kankar uTha

غزل

ہاتھ خالی ہے کوئی کنکر اٹھا

ہمدم کاشمیری

;

ہاتھ خالی ہے کوئی کنکر اٹھا
آنکھ سے ٹھہرا ہوا منظر اٹھا

خامشی کا طنطنہ ہے ہر طرف
شور یہ کیسا مرے اندر اٹھا

کیا نہیں رکھا تھا میرے سامنے
پھر بھی سجدے سے نہ میرا سر اٹھا

اب بھی مالا مال ہے میرا ہنر
سامنے سے میرے سیم و زر اٹھا

میں بہت نادم ہوں اپنے کام سے
میری مٹی سے نیا پیکر اٹھا

میں بھی دیکھوں میرا قاتل کون ہے
ڈھک نہ دے میرا بدن چادر اٹھا