ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی
میرا چھپر اٹھا گیا کوئی
لگ گیا اک مشین میں میں بھی
شہر میں لے کے آ گیا کوئی
میں کھڑا تھا کہ پیٹھ پر میری
اشتہار اک لگا گیا کوئی
یہ صدی دھوپ کو ترستی ہے
جیسے سورج کو کھا گیا کوئی
ایسی مہنگائی ہے کہ چہرہ بھی
بیچ کے اپنا کھا گیا کوئی
اب وہ ارمان ہیں نہ وہ سپنے
سب کبوتر اڑا گیا کوئی
وہ گئے جب سے ایسا لگتا ہے
چھوٹا موٹا خدا گیا کوئی
میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی
غزل
ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی
کیفی اعظمی