ہاتھ آ گیا ہے جب سے شعور خودی کا سانپ
سینے پہ لوٹتا ہے غم زندگی کا سانپ
اپنے بدن سے خول انا کا اتار کر
پھنکارتا ہے شام و سحر آگہی کا سانپ
میں کھیلتا ہوں اس سے مگر جانتا ہوں یہ
اک دن مجھے ڈسے گا نئی روشنی کا سانپ
کیوں من کا مور پنکھ نہ اپنے سمیٹ لے
آنگن میں کھیلتا ہے غم عاشقی کا سانپ
موج سراب کا بھی پتہ دور تک نہیں
شدت سے ڈس رہا ہے مجھے تشنگی کا سانپ
تہذیب کا کھنڈر ہے نگاہوں کے سامنے
وہ رینگتا ہے دیکھیے اک خامشی کا سانپ
کیوں نیلکنٹھ بن کے نہ پی جاؤں اس کو میں
جو زہر اگل رہا ہے غم آگہی کا سانپ
غزل
ہاتھ آ گیا ہے جب سے شعور خودی کا سانپ
کرامت علی کرامت