حاصل عمر ہے جو ایک کسک باقی ہے
میری سانسوں میں ابھی تیری مہک باقی ہے
مجھ سے کیا چھین سکا تو کہ ابھی تک میرے
پاؤں کے نیچے زمیں سر پہ فلک باقی ہے
پھر تجھے اور مجھے اور کہیں جانا ہے
ہم سفر ساتھ تو چل جتنی سڑک باقی ہے
یہ کوئی کم تو نہیں دوست جدا ہو کر بھی
اپنے لہجے میں شکایت کی جھلک باقی ہے
اس سے بہتر تھا مجھے راہ نشینی کا یقیں
کیسی منزل ہے پہنچنے پہ بھی شک باقی ہے
تیری ہر شام ستاروں سے سجانا ہے مجھے
جب تک آنکھوں پہ مری اک بھی پلک باقی ہے
غزل
حاصل عمر ہے جو ایک کسک باقی ہے
شکیل جاذب