ہارے ہوئے لوگوں کی کہانی کی طرح ہیں
ہم لوگ بھی بہتے ہوئے پانی کی طرح ہیں
دنیا ترے ہونے کا یقیں کیوں نہیں کرتی
ہم بھی تو یہاں تیری نشانی کی طرح ہیں
چپکے سے گزرتے ہیں خبر بھی نہیں ہوتی
دن رات بھی کمبخت جوانی کی طرح ہیں
گر نام کمانا ہے تمہیں اتنا سمجھ لو
آنسو بھی محبت کی نشانی کی طرح ہیں
اس بار ہے ہونا بھی نہ ہونے کے برابر
اس بار تو ہم جیسے کہانی کی طرح ہیں
غزل
ہارے ہوئے لوگوں کی کہانی کی طرح ہیں
ازلان شاہ