EN हिंदी
ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا | شیح شیری
haar bana in para-e-dil ka mang na gajra phulon ka

غزل

ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا

شاہ نصیر

;

ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا
اور کہاں سے عاشق مفلس لائے یہ گہنہ پھولوں کا

دیکھے ہے وہ صحن چمن میں جا کے تماشا پھولوں کا
داغوں سے بن جائے یہ سینہ کاش کہ تختہ پھولوں کا

کاش دل صد چاک یہ بن کر بیچنے والا پھولوں کا
کوئے بتاں میں جا کے پکارے لو کوئی گجرا پھولوں کا

حرف نہیں ہے دیدۂ تر ٹکڑوں سے جگر کے لائق پر
سیل اشک کو دریا سمجھو اس کو نواڑا پھولوں کا

صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ
دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا

مجھ کو نہ لے چل باد بہاری رنگ چمن ہے وحشت خیز
جیب سے لے کر دامن تک سو ٹکڑے کرتا پھولوں کا

تو نے لٹایا انگاروں پر صبح تلک اے وعدہ خلاف
تیری خاطر ہم نے کیا تھا شب کو بچھونا پھولوں کا

سلک سرشک سرخ زمیں تک تجھ کو دکھاوے مژگاں سے
پھلجھڑی ایسی چھوڑ کوئی ہوں میں بھی لچھا پھولوں کا

کان سے تیرے جھک جھک کر یہ لیتا ہے بوسے عارض کے
یا تو ہمارے ٹکڑے کر یا توڑ یہ بالا پھولوں کا

دھوپ میں اس کا ہائے قفس صیاد ستم ایجاد رکھے
رہتا تھا جس مرغ چمن کے سر پر سایا پھولوں کا

جھل کھائے اغیار نہ کیوں کر کل چلون سے ہات نکال
مارا تھا اس پردہ نشیں نے مجھ کو پنکھا پھولوں کا

عشق میں تیرے گل کھا کر جاں اپنی دی ہے نصیرؔ نے آہ
اس کے سر مرقد پر گل رو لا کوئی دونا پھولوں کا