ہاں یہ توفیق کبھی مجھ کو خدا دیتا تھا
نیکیاں کر کے میں دریا میں بہا دیتا تھا
تھا اسی بھیڑ میں وہ میرا شناسا تھا بہت
جو مجھے مجھ سے بچھڑنے کی دعا دیتا تھا
اس کی نظروں میں تھا جلتا ہوا منظر کیسا
خود جلائی ہوئی شمعوں کو بجھا دیتا تھا
آگ میں لپٹا ہوا حد نظر تک ساحل
حوصلہ ڈوبنے والوں کا بڑھا دیتا تھا
یاد رہتا تھا نگاہوں کو ہر اک خواب مگر
ذہن ہر خواب کی تعبیر بھلا دیتا تھا
کیوں پرندوں نے درختوں پہ بسیرا نہ کیا
کون گزرے ہوئے موسم کا پتہ دیتا تھا
غزل
ہاں یہ توفیق کبھی مجھ کو خدا دیتا تھا
امیر قزلباش