ہاں وہ میں ہی تھا کہ جس نے خواب ڈھویا صبح تک
کون تھا وہ جو مرے بستر پہ سویا صبح تک
رات بھر کمرے میں میں دبکا رہا اور آسماں
میری فرقت میں مرے آنگن میں رویا صبح تک
بلب روشن تھا اندھیرے کو اجازت تھی نہیں
پھر بھی وہ بستر کے نیچے خوب سویا صبح تک
لوگ اکڑی پیٹھ لے کر دفتروں سے چل پڑے
میز کرسی کو ملا آرام گویا صبح تک
چاندنی شبنم ہوا کی برچھیاں چلنے کو ہیں
دن گئے کیوں آئے ہو جاؤ رکو یا صبح تک
اتنے چہروں میں مجھے ہے ایک چہرے کی تلاش
جس کو میں نے کھو کے پایا پا کے کھویا صبح تک
ہجر کی شب ان کی آمد کے تصور میں ظہیرؔ
منتظر آنکھوں نے دامن ہی بھگویا صبح تک
غزل
ہاں وہ میں ہی تھا کہ جس نے خواب ڈھویا صبح تک
ظہیر صدیقی