ہاں وہی عشق و محبت کی جلا ہوتی ہے
جو عبادت در جاناں پہ ادا ہوتی ہے
جو گرفتار محبت ہیں یہ ان سے پوچھو
ناز کیا چیز ہے کیا چیز ادا ہوتی ہے
ان کی نظروں کی حقیقت کو کوئی کیا جانے
ان کی نظروں میں ہر اک غم کی دوا ہوتی ہے
کیوں نہ چہرے پہ ملوں خاک در یار کو میں
یہی وہ خاک ہے جو خاک شفا ہوتی ہے
رائیگاں سجدے بھی ہو جاتے ہیں مقبول کرم
شامل حال اگر ان کی رضا ہوتی ہے
جانے کیا چیز چھپی ہے ترے جلووں میں صنم
ساری دنیا تیرے جلووں پہ فدا ہوتی ہے
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر کا طالب
تیرے کوچے میں مریضوں کو شفا ہوتی ہے
ان کے میخانے کو چھو آتی ہے جب فصل بہار
پھول کھل جاتے ہیں مستی میں ہوا ہوتی ہے
اے فناؔ ملتا ہے عاشق کو بقا کا پیغام
زندگی جب رہ الفت میں فنا ہوتی ہے
غزل
ہاں وہی عشق و محبت کی جلا ہوتی ہے
فنا بلند شہری