ہاں جسے عاشقی نہیں آتی
لذت زندگی نہیں آتی
جیسے اس کا کبھی یہ گھر ہی نہ تھا
دل میں برسوں خوشی نہیں آتی
جب سے بلبل اسیر دام ہوئی
کسی گل کو ہنسی نہیں آتی
سب شرابی مجھے کہیں تجھ کو
شرم اے بے خودی نہیں آتی
یوں تو آتی ہیں سیکڑوں باتیں
وقت پر ایک بھی نہیں آتی
سوچتا کیا ہے پی بھی لے زاہد
کچھ قیامت ابھی نہیں آتی
انتہا غم کی اس کو کہتے ہیں
زخم کو بھی ہنسی نہیں آتی
کوندتی ہے ہزار رنگ سے برق
پھر بھی شوخی تری نہیں آتی
صرف جب تک نہ خون دل ہو جلیلؔ
رنگ پر شاعری نہیں آتی
غزل
ہاں جسے عاشقی نہیں آتی
جلیلؔ مانک پوری