ہاں ابھی کچھ دیر پہلے شیر کی گونجی تھی دہاڑ
اب تو سناٹا ہے شاید ہو چکی ہو چیر پھاڑ
جسم سے پہرہ ہٹا یہ کھردری کھالیں ادھیڑ
خون کی جھاڑو سے پھر ان ہڈیوں کی گرد جھاڑ
ذہن میں جب کوئی شیریں کا تصور آ گیا
سر پہ تیشوں کو اٹھائے دوڑتے آئے پہاڑ
وحشتیں تاریکیاں رسوائیاں بربادیاں
ہائے امیدوں کی بستی اور پھر اتنی اجاڑ
جستجو کی دھوپ میں جو چلتے چلتے مر گئے
ان کی لاشوں کو اٹھا کر نیم کے سائے میں گاڑ
رات بھر ٹھنڈے تھپیڑے دستکیں دیتے رہے
صبح تک جاگے نہ تھے سوئے ہوئے تیرے کواڑ

غزل
ہاں ابھی کچھ دیر پہلے شیر کی گونجی تھی دہاڑ
رشید افروز