حالت اسے دل کی نہ دکھائی نہ زباں کی
خیر اس نے نہ کی بات تو ہم نے بھی کہاں کی
پہلے تو ہنسا زور سے پھر آہ و فغاں کی
مستی میں قلندر نے بڑی دور کی ہاں کی
اللہ کا بندہ کوئی گھر سے نہیں نکلا
تفسیر سبھی کرتے رہے کون و مکاں کی
ایک اس کا سراپا ہے کہ بس میں نہیں آتا
کیا ہو گئی حالت مرے انداز بیاں کی
ایک ایک ستم گر کو تصور میں بلا کر
شمشیر زباں ہم نے بھی کل خوب رواں کی
طوفان معانی مرے ہر لفظ کے پیچھے
تیزی ہے ہر اک شعر میں دلی کی زباں کی
صحرائے عدم کا بھی شجاعؔ خوب مزہ ہے
تم سوچتے رہتے ہو فقط گلشن جاں کی
غزل
حالت اسے دل کی نہ دکھائی نہ زباں کی
شجاع خاور