حالت بیمار غم پر جس کو حیرانی نہیں
اصل میں اس آدمی میں خوئے انسانی نہیں
ایسی بے دردی سے اس کو مت بہاؤ خاک پر
خون انساں خون انساں ہے کوئی پانی نہیں
روح کا رشتہ کبھی کیا توڑ پائی ہے قضا
زندگی فانی ہے لیکن روح تو فانی نہیں
جس کی خوشبو سے معطر رات بھر رہتا تھا میں
میرے گھر کے پاس اب وہ رات کی رانی نہیں
میں تعجب میں ہوں یہ کیسا زمانہ آ گیا
چاند میں ٹھنڈک نہیں سورج میں تابانی نہیں
پھر ترے اوپر نہ ٹوٹے کیوں عذابوں کا پہاڑ
تیرے اندر اک ذرا بھی بوئے ایمانی نہیں
یوں نہ اپنے چاہنے والے کو رسوا کیجئے
یہ تو انداز سلوک دلبر جانی نہیں
کیوں نہیں طوفاں کا منظر تیری چشم شوق میں
کیوں ترے دریائے دل میں اب وہ طغیانی نہیں
مطمئن ہے عشق بھی شام الم کے باوجود
حسن کے چہرے پہ بھی عکس پریشانی نہیں
عشق میں بھی تو نہ پائے گا کہیں میرا جواب
جان من جو حسن میں کوئی ترا ثانی نہیں
اے ظفرؔ پالے ہوئے ہیں وہ بھی دنیا کی ہوس
اب فقیر عشق میں بھی بوئے عرفانی نہیں

غزل
حالت بیمار غم پر جس کو حیرانی نہیں
ظفر انصاری ظفر