حالات کے کہنہ در و دیوار سے نکلیں
دنیا کو بدلنا ہے تو گھر بار سے نکلیں
ناکام صداؤں کے ہیں آسیب یہاں پر
اس دشت تمنا سے تو رفتار سے نکلیں
جن میں ہو محبت کا اخوت کا اشارہ
پیغام کچھ ایسے بھی تو اخبار سے نکلیں
دنیا بھی تو بن سکتی ہے جنت کا نمونہ
ہم اپنی انا اپنے ہی پندار سے نکلیں
جو حق و صداقت کا سبق بھول گئے ہیں
وہ کیسے بھلا وقت کے آزار سے نکلیں
ہم نے بھی بہاروں کو لہو اپنا دیا ہے
اب ہم سے ہی کہتے ہو کہ گلزار سے نکلیں
اس درجہ تغافل ہے تو ہم نے بھی یہ سوچا
امید کرم حسرت دیدار سے نکلیں
ہر ایک قدم پر ہے یہاں جان کا خطرہ
اب سوچ سمجھ کر ذرا بازار سے نکلیں
آگے ہی نکلنا ہے جو شایانؔ سے ان کو
اخلاق سے اعمال سے کردار سے نکلیں
غزل
حالات کے کہنہ در و دیوار سے نکلیں
شایان قریشی