حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے
میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے
میں بھی آخر ہوں اسی دشت کا رہنے والا
کیسے مجنوں سے کہوں خاک اڑایا نہ کرے
آئنہ میرے شب و روز سے واقف ہی نہیں
کون ہوں کیا ہوں مجھے یاد دلایا نہ کرے
عین ممکن ہے چلی جائے سماعت میری
دل سے کہیے کہ بہت شور مچایا نہ کرے
مجھ سے رستوں کا بچھڑنا نہیں دیکھا جاتا
مجھ سے ملنے وہ کسی موڑ پہ آیا نہ کرے
غزل
حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے
کاشف حسین غائر