EN हिंदी
حال کچھ اب کے جدا ہے ترے دیوانوں کا | شیح شیری
haal kuchh ab ke juda hai tere diwanon ka

غزل

حال کچھ اب کے جدا ہے ترے دیوانوں کا

یوسف تقی

;

حال کچھ اب کے جدا ہے ترے دیوانوں کا
شہر میں ڈھیر نہ لگ جائے گریبانوں کا

یہ مرا ضبط ہے یا تیری ادا کی تہذیب
رنگ آنکھوں میں جھلکتا نہیں ارمانوں کا

میکدے کے یہی آداب ہیں رندو سن لو
غم نہیں کرتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

سانس لینے کو کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈو
شہر جنگل سا ہوا جاتا ہے انسانوں کا

اب حقیقت کی تہوں تک کوئی کیسے پہونچے
ایک طوفان بپا ہے یہاں افسانوں کا