حال کچھ اب کے جدا ہے ترے دیوانوں کا
شہر میں ڈھیر نہ لگ جائے گریبانوں کا
یہ مرا ضبط ہے یا تیری ادا کی تہذیب
رنگ آنکھوں میں جھلکتا نہیں ارمانوں کا
میکدے کے یہی آداب ہیں رندو سن لو
غم نہیں کرتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
سانس لینے کو کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈو
شہر جنگل سا ہوا جاتا ہے انسانوں کا
اب حقیقت کی تہوں تک کوئی کیسے پہونچے
ایک طوفان بپا ہے یہاں افسانوں کا
غزل
حال کچھ اب کے جدا ہے ترے دیوانوں کا
یوسف تقی