حال دل سن کے مرا سر بہ گریباں کیوں ہیں
جو کیا آپ نے اب اس پہ پشیماں کیوں ہیں
مد بھرے نین یہ اور حسن و جوانی کا نکھار
آئنہ دیکھ کے آج آپ بھی حیراں کیوں ہیں
میری ہر سعیٔ وفا ہو گئی بے کار مگر
دل میں پھر بھی مرے بڑھتے ہوئے ارماں کیوں ہیں
مری ناکامیوں کا مرثیہ پڑھنے کے بجائے
کچھ بتائیں تو سہی آپ غزل خواں کیوں ہیں
پہلے آغاز محبت میں سہارا دے کر
آپ اب میری محبت سے پریشاں کیوں ہیں
میرے اشعار تو پڑھتے ہیں بڑے شوق سے آپ
اور اشعار کے خالق سے گریزاں کیوں ہیں
بحر الفت میں سفینے تو بہت ہیں اے موجؔ
میری ہی کشتی کو گھیرے ہوئے طوفاں کیوں ہیں

غزل
حال دل سن کے مرا سر بہ گریباں کیوں ہیں
موج فتح گڑھی