حال دل بیمار سمجھ میں چارہ گروں کی آئے کم
بے چینی ہو جائے زیادہ درد اگر ہو جائے کم
اشک نگل جاؤں تو یقیناً شدت غم ہو جائے کم
دل کا جھلس جانا لازم ہے آہ جو لب پر آئے کم
مجھ کو ہے تسلیم قفس میں پھولوں کے ہیں سائے کم
ہائے مگر وہ جن کو چمن کی آب و ہوا راس آئے کم
راہ طلب میں ہر منزل پر ہو تجدید عزم سفر
رہرو کو آرام نہ آئے اور جو آئے آئے کم
قامت فن کی بات الگ معیار ہنر کی بات الگ
شہر سخن گنجان ہے لیکن ہیں میرے ہم سایے کم
اپنے عیب سے واقف ہونا سب سے بڑا ہے کار ہنر
آدمی خود آئینہ دیکھے اوروں کو دکھلائے کم
پوچھنے والو حال نہ پوچھو عشق میں اب یہ عالم ہے
خود پر ہنسنا آئے زیادہ دل پر رونا آئے کم
عارض رنگیں کہنے میں توصیف تو ہے تشبیہ نہیں
پھول پہ آئے اس کی شباہت پھول کی اس پر آئے کم
شہر نفس سے وادئ جاں تک سیکڑوں نازک رشتے ہیں
سانس نہ رکنے پائے اخگرؔ درد نہ ہونے پائے کم

غزل
حال دل بیمار سمجھ میں چارہ گروں کی آئے کم
حنیف اخگر