حائل تھی بیچ میں جو رضائی تمام شب
اس غم سے ہم کو نیند نہ آئی تمام شب
کی یاس سے ہوس نے لڑائی تمام شب
تم نے تو خوب راہ دکھائی تمام شب
پھر بھی تو ختم ہو نہ سکی آرزو کی بات
ہر چند ہم نے ان کو سنائی تمام شب
بے باک ملتے ہی جو ہوئے ہم تو شرم سے
آنکھ اس پری نے پھر نہ ملائی تمام شب
دل خوب جانتا ہے کہ تم کس خیال سے
کرتے رہے عدو کی برائی تمام شب
پھر شام ہی سے کیوں وہ چلے تھے چھڑا کے ہاتھ
دکھتی رہی جو ان کی کلائی تمام شب
حسرتؔ سے کچھ وہ آتے ہی ایسے ہوئے خفا
پھر ہو سکی نہ ان سے صفائی تمام شب
غزل
حائل تھی بیچ میں جو رضائی تمام شب
حسرتؔ موہانی