حائل ہے حجاب شرم و حیا دیدار تو کیا گفتار تو کیا
مبہم ہیں اشارے سب اس کے انکار تو کیا اقرار تو کیا
الطاف و کرم کی بارش بھی جو مجھ پہ کرے سنسار تو کیا
جب اس نے نہ پوچھا حال مرا دریافت کریں اغیار تو کیا
ہے دربدری قسمت میری شوریدہ سری تو ہی لے چل
تسکین دل محزوں کے لیے گلزار تو کیا کہسار تو کیا
ہیں عزم مسافر کے آگے خطرات مسافت ہیچ بہت
منزل کی طلب ہے دل میں اگر ہو راہ گزر دشوار تو کیا
تنگ آ کے محبت ترک نہ کی ہم گرچہ رہے ناکام سدا
سرشار تھے لذت حسرت و غم سے ہوتے بھلا بیزار تو کیا

غزل
حائل ہے حجاب شرم و حیا دیدار تو کیا گفتار تو کیا
محمد عابد علی عابد