ہائے کیا حال کر لیا دل کا
زخم اب تک نہیں سیا دل کا
آ کے صورت دکھا ان آنکھوں کو
بجھ نہ جائے کہیں دیا دل کا
کل تلک تھا وفا کا سودائی
آج پڑھتا ہے مرثیہ دل کا
تولے احساس کی کسوٹی پر
ہے جداگانہ زاویہ دل کا
کوئی رف ورک کا نشاں بھی نہیں
خالی خالی ہے حاشیہ دل کا
کامیابی کا انحصار اس پر
ہم کو کرنا ہے تصفیہ دل کا
پیاس لگتی نہیں کبھی اس کو
خون جس نے بھی پی لیا دل کا
نثر میں گفتگو کریں کیوں کر
جب ہے انداز نظمیہ دل کا
جب نہیں سوجھتا مجھے کچھ اور
باندھ لیتا ہوں قافیہ دل کا
شادؔ ہم نے تو دے دیا تھا اسے
کیا پتہ اس نے کیا کیا دل کا
غزل
ہائے کیا حال کر لیا دل کا
شمشاد شاد