EN हिंदी
ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا | شیح شیری
hae dam bhar bhi dil Thahar na saka

غزل

ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا

جلیلؔ مانک پوری

;

ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
ہاتھ سینے پہ کوئی دھر نہ سکا

آئینہ کس سے دیکھا جاتا ہے
رشک کے مارے وہ سنور نہ سکا

رہ گیا آنکھ میں نزاکت سے
دل میں نقشہ ترا اتر نہ سکا

وسعت ظرف سے رہا محروم
جام میرا کسی سے بھر نہ سکا

اس جہاں سے گزر گئے لاکھوں
اس گلی سے کوئی گزر نہ سکا

مےکشی سے نجات مشکل ہے
مے کا ڈوبا کبھی ابھر نہ سکا

اشک جاری تھے یاد گیسو میں
رات بھر قافلہ ٹھہر نہ سکا

موسم گل میں بھی جلیلؔ افسوس
دامن اپنا گلوں سے بھر نہ سکا