ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
ہاتھ سینے پہ کوئی دھر نہ سکا
آئینہ کس سے دیکھا جاتا ہے
رشک کے مارے وہ سنور نہ سکا
رہ گیا آنکھ میں نزاکت سے
دل میں نقشہ ترا اتر نہ سکا
وسعت ظرف سے رہا محروم
جام میرا کسی سے بھر نہ سکا
اس جہاں سے گزر گئے لاکھوں
اس گلی سے کوئی گزر نہ سکا
مےکشی سے نجات مشکل ہے
مے کا ڈوبا کبھی ابھر نہ سکا
اشک جاری تھے یاد گیسو میں
رات بھر قافلہ ٹھہر نہ سکا
موسم گل میں بھی جلیلؔ افسوس
دامن اپنا گلوں سے بھر نہ سکا
غزل
ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
جلیلؔ مانک پوری