EN हिंदी
ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے | شیح شیری
hae ab kaun lagi dil ki bujhane aae

غزل

ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے

حفیظ جونپوری

;

ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
جن سے امید تھی اور آگ لگانے آئے

درد مندوں کی یوں ہی کرتے ہیں ہمدردی لوگ
خوب ہنس ہنس کے ہمیں آپ رلانے آئے

خط میں لکھتے ہیں کہ فرصت نہیں آنے کی ہمیں
اس کا مطلب تو یہ ہے کوئی منانے آئے

آنکھ نیچی نہ ہوئی بزم عدو میں جا کر
یہ ڈھٹائی کہ نظر ہم سے ملانے آئے

طعنے بے صبر یوں کے ہائے تشفی کے عوض
اور دکھتے ہوئے دل کو وہ دکھانے آئے

اور تو سب کے لیے ہے تیری محفل میں جگہ
ہم جو بیٹھیں ابھی دربان اٹھانے آئے

چٹکیاں لینے کو پہلو میں رہا ایک نہ ایک
تو نہیں تو تیرے ارمان ستانے آئے

بیکسی کا تو جلا دل مری تربت پہ حفیظؔ
کیا ہوا وہ نہ اگر شمع جلانے آئے