حادثہ کون سا ہوا پہلے
رات آئی کہ دن ڈھلا پہلے
اب میں پانی تلاش کرتا ہوں
بھوک تھی میرا مسئلہ پہلے
خواب تھے میری دسترس میں دو
میں نے دیکھا تھا دوسرا پہلے
اب تو وہ بھی نظر نہیں آتا
دکھ رہا تھا جو راستہ پہلے
اب تو یہ بھی قدیم لگتا ہے
کس قدر شہر تھا نیا پہلے
اس سے پہلے کہ ٹوٹتی امید
ٹوٹ جانا تھا حوصلہ پہلے
پھول کے زخم بعد میں پوچھیں
ہاتھ کانٹوں سے چھل گیا پہلے
غزل
حادثہ کون سا ہوا پہلے
عین عرفان