گزری ہوئی وہ رت کبھی آنی تو ہے نہیں
دل نے مگر یہ بات بھی مانی تو ہے نہیں
اے قصہ گو یہ لہجہ ترا یوں کبھی نہ تھا
کچھ تو بتا یہ کیا ہے کہانی تو ہے نہیں
کچھ اس کے مسکرانے سے اندازہ ہو تو ہو
اندر کی چوٹ ہے نظر آنی تو ہے نہیں
پھر اس گلی نہ جانے پہ راضی ہوا تو ہے
اب کے بھی دل نے بات نبھانی تو ہے نہیں
وہ بات اب کہاں کہ دلوں کو کرے غلام
بس اک چمک ہے آنکھ میں پانی تو ہے نہیں
دنیا ترے لئے جو گزاری گزار دی
اب یہ جو رہ گئی ہے گنوانی تو ہے نہیں

غزل
گزری ہوئی وہ رت کبھی آنی تو ہے نہیں
خالد محمود ذکی