گزرے وقتوں کی وہ تحریر سنبھالے ہوئے ہیں
دل کو بہلانے کی تدبیر سنبھالے ہوئے ہیں
باندھ رکھا ہے ہمیں جس نے ابھی تک جاناں
ہم محبت کی وہ زنجیر سنبھالے ہوئے ہیں
دیکھتے رہتے ہیں اجداد کے چہرے جس میں
ہم وفاؤں کی وہ تصویر سنبھالے ہوئے ہیں
جن لکیروں میں نجومی نے کہا تھا تو ہے
دونوں ہاتھوں میں وہ تقدیر سنبھالے ہوئے ہیں
وصل کی شب میں جو دیکھے تھے سنہری سپنے
ان کی ہم آج بھی تدبیر سنبھالے ہوئے ہیں
غزل
گزرے وقتوں کی وہ تحریر سنبھالے ہوئے ہیں
سنتوش کھروڑکر