EN हिंदी
گزرے تھے حسین ابن علی رات ادھر سے | شیح شیری
guzre the husain ibn-e-ali raat idhar se

غزل

گزرے تھے حسین ابن علی رات ادھر سے

شہریار

;

گزرے تھے حسین ابن علی رات ادھر سے
ہم میں سے مگر کوئی بھی نکلا نہیں گھر سے

اس بات پہ کس واسطے حیران ہیں آنکھیں
پت جھڑ ہی میں ہوتے ہیں جدا پتے شجر سے

تو یوں ہی پشیماں ہے سبب تو نہیں اس کا
نیند آتی نہیں ہم کو کسی خواب کے ڈر سے

سنتے ہیں بہت نام کبھی دیکھتے ہم بھی
اے موج بلا تجھ کو گزرتے ہوئے سر سے

تھکنا ہے ٹھہرنا ہے بہرحال سبھی کو
جی اپنا بھی بھر جائے گا اک روز سفر سے