گزرے تھے حسین ابن علی رات ادھر سے
ہم میں سے مگر کوئی بھی نکلا نہیں گھر سے
اس بات پہ کس واسطے حیران ہیں آنکھیں
پت جھڑ ہی میں ہوتے ہیں جدا پتے شجر سے
تو یوں ہی پشیماں ہے سبب تو نہیں اس کا
نیند آتی نہیں ہم کو کسی خواب کے ڈر سے
سنتے ہیں بہت نام کبھی دیکھتے ہم بھی
اے موج بلا تجھ کو گزرتے ہوئے سر سے
تھکنا ہے ٹھہرنا ہے بہرحال سبھی کو
جی اپنا بھی بھر جائے گا اک روز سفر سے
غزل
گزرے تھے حسین ابن علی رات ادھر سے
شہریار