گزرے نہیں اور گزر گئے ہم
اس بھیڑ کا کام کر گئے ہم
یہ صحن گواہ ہے ہمارا
اس گھر میں بھی در بہ در گئے ہم
دریافت کو زخم کی چلے تھے
تاریخ کی دھار پر گئے ہم
اس بات پہ اب الجھ رہے ہیں
باقی تھے تو پھر کدھر گئے ہم
تصویر سے باہر آئے کچھ دیر
گھر بھر کو اداس کر گئے ہم
ورنہ یہ زمین مٹ چلی تھی
بر وقت ادھر ادھر گئے ہم
خالی تھے اور اس قدر تھے خالی
بس ایک نگہ سے بھر گئے ہم
تھے کون و مکاں مکاں سے باہر
باہر کسی شور پر گئے ہم

غزل
گزرے نہیں اور گزر گئے ہم
شاہین عباس