EN हिंदी
گزرا ہوا زمانہ پھر یاد آ رہا ہے | شیح شیری
guzra hua zamana phir yaad aa raha hai

غزل

گزرا ہوا زمانہ پھر یاد آ رہا ہے

سردار سوز

;

گزرا ہوا زمانہ پھر یاد آ رہا ہے
بھولا ہوا فسانہ پھر یاد آ رہا ہے

جو پھول بن گیا ہے ہونٹوں پر اس کے آ کر
وہ حرف محرمانہ پھر یاد آ رہا ہے

جس میں تھے چاند تارے محبوب تھے ہمارے
کیوں وہ نگار خانہ پھر یاد آ رہا ہے

وہ دو دلوں کو جس نے ہم راز کر دیا تھا
وہ راز دلبرانہ پھر یاد آ رہا ہے

جس کی بساط الٹ دی اے سوزؔ آسماں نے
کیوں وہ شراب خانہ پھر یاد آ رہا ہے