EN हिंदी
گزرا اپنا پس مردن ہی سہی | شیح شیری
guzra apna pas-e-murdan hi sahi

غزل

گزرا اپنا پس مردن ہی سہی

حاتم علی مہر

;

گزرا اپنا پس مردن ہی سہی
کوچۂ یار میں مدفن ہی سہی

خیر جو رنگ نہیں ہے تو نہ ہو
تیغ کھینچو مری گردن ہی سہی

قبر بلبل پہ چلوں رونے کو
آج گلزار میں شیون ہی سہی

بت تو واللہ بنا لیں گے کبھی
شور ناقوس برہمن ہی سہی

جوش وحشت ہے دلا نجد کو چل
سیر کرنے کے لیے بن ہی سہی

شمع تو یار چڑھاتا ہی نہیں
داغ دل قبر میں روشن ہی سہی

حال کچھ مرے گریباں میں نہیں
اے جنوں دشت کا دامن ہی سہی

کوئی ہم چشم تو ہو زنداں میں
حیرتی دیدۂ روزن ہی سہی

مسی مالیدہ دہن میں ہے کلام
بوسۂ ہائے غنچۂ سوسن ہی سہی

ناصحا اس کی برائی تو نہ کر
نہ سہی دوست وہ دشمن ہی سہی

گل رخوں سے تو ہوئی قطع امید
مہرؔ نظارہ گلشن ہی سہی