EN हिंदी
گزرتے وقت کی کوئی نشانی ساتھ رکھتا ہوں | شیح شیری
guzarte waqt ki koi nishani sath rakhta hun

غزل

گزرتے وقت کی کوئی نشانی ساتھ رکھتا ہوں

آفتاب حسین

;

گزرتے وقت کی کوئی نشانی ساتھ رکھتا ہوں
کہ میں ٹھہراؤ میں بھی اک روانی ساتھ رکھتا ہوں

سمجھ میں خود مری آتا نہیں حالات کا چکر
مکاں رکھتا نہیں ہوں لا مکانی ساتھ رکھتا ہوں

گزرنا ہے مجھے کتنے غبار آلود رستوں سے
سو اپنی آنکھ میں تھوڑا سا پانی ساتھ رکھتا ہوں

فنا ہونا اگر لکھا گیا ہے میرے ہونے میں
تو میں تجھ کو بھی اے دنیائے فانی ساتھ رکھتا ہوں