گزرتے لمحوں کے دل میں کیا ہے ہمیں پتہ ہے
ہوا کے آنچل پہ کیا لکھا ہے ہمیں پتہ ہے
سلگ رہی ہے کہاں پہ چنگاری نفرتوں کی
دھواں کہاں سے یہ اٹھ رہا ہے ہمیں پتہ ہے
سفینہ کس طرح پار اتاریں یہ ہم سے پوچھو
سمندروں کا مزاج کیا ہے ہمیں پتہ ہے
کہاں کہاں حادثے چھپے ہیں خبر ہے ہم کو
کہاں سے منزل کا راستہ ہے ہمیں پتہ ہے
جو عمر بھر ظلم سے لڑا سندباد بن کر
اسے زمانے نے کیا دیا ہے ہمیں پتہ ہے
جو دے رہا ہے دہائی معصومیت کی اپنی
وہی تو سازش کا سرغنہ ہے ہمیں پتہ ہے
خزاں نے گلشن سے جاتے جاتے خمارؔ صاحب
صبا کے کانوں میں کیا کہا ہے ہمیں پتہ ہے
غزل
گزرتے لمحوں کے دل میں کیا ہے ہمیں پتہ ہے
سلیمان خمار