EN हिंदी
گزر رہا ہے وہ لمحہ تو یاد آیا ہے | شیح شیری
guzar raha hai wo lamha to yaad aaya hai

غزل

گزر رہا ہے وہ لمحہ تو یاد آیا ہے

شارق کیفی

;

گزر رہا ہے وہ لمحہ تو یاد آیا ہے
اس ایک پل سے کبھی کتنا خوف کھایا ہے

اسی نگاہ نے آنکھوں کو کر دیا پتھر
اسی نگاہ میں سب کچھ نظر بھی آیا ہے

یہ طنز یوں بھی ہے اک امتحان میرے لیے
ترے لبوں سے کوئی اور مسکرایا ہے

بہے رقیب کے آنسو بھی میرے گالوں پر
یہ سانحہ بھی محبت میں پیش آیا ہے

یہ کوئی اور ہے تیری طرف سرکتا ہوا
اندھیرا ہوتے ہی جو مجھ میں آ سمایا ہے

ہمارے عشق سے مرعوب اس قدر بھی نہ ہو
یہ خوں تو ایک اداکار نے بہایا ہے

یہاں تو ریت ہے پتھر ہیں اور کچھ بھی نہیں
وہ کیا دکھانے مجھے اتنی دور لایا ہے

بہت سے بوجھ ہیں دل پر یہ کوئی ایسا نہیں
یہ دکھ کسی نے ہمارے لئے اٹھایا ہے