گزر نہ جائے سماعت کے سرد خانوں سے
یہ بازگشت جو چپکی ہوئی ہے کانوں سے
کھرا نہیں تھا مگر ایسا رائیگاں بھی نہ تھا
وہ سکہ ڈھونڈ کے اب لاؤں کن خزانوں سے
یہ چشم ابر کا پانی یہ نخل مہر کے پات
اتر رہا ہے مرا رزق آسمانوں سے
جو در کھلے ہیں کبھی بند کیوں نہیں ہوتے
یہ پوچھتا ہی کہاں ہے کوئی مکانوں سے
اتار پھینکا بدن سے لباس تک شارقؔ
مگر یہ بوجھ کہ ہٹتا نہیں ہے شانوں سے

غزل
گزر نہ جائے سماعت کے سرد خانوں سے
سعید شارق