گزر جائیں گے یہ دن بے بسی کے
زمانے لوٹ آئیں گے خوشی کے
اٹھو اور بندگی کر لو خدا کی
گزر جائیں نہ لمحے بندگی کے
خدا کی ذات پر رکھیں بھروسہ
بھرے گا وہ خزانے ہر کسی کے
ہمیشہ واسطہ نیکی سے رکھنا
نہ جانا پاس ہرگز تم بدی کے
ہوئی ہے شمع گل اب پیار والی
جلیں کیسے دیے اب زندگی کے
بھروسہ ہے خدا کی رحمتوں پر
تو کیوں پھیلائیں ہاتھ آگے کسی کے
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے
چلن اچھے نہیں ہیں اس صدی کے
نظر نیچی یہ ماتھے کی متانت
میں قرباں آپ کی اس سادگی کے
غزل
گزر جائیں گے یہ دن بے بسی کے
شوبھا ککل