گزر گیا جو زمانہ عجیب لگتا ہے
گئی رتوں کا فسانہ عجیب لگتا ہے
تم اپنے ساتھ ہی لے جاؤ اپنی یادوں کو
کہ چشم نم کا چھپانا عجیب لگتا ہے
گلا کیا نہ کبھی تم سے بے وفائی کا
لبوں پہ آہ کا آنا عجیب لگتا ہے
نہ ہاں نہ ہوں نہ کوئی سلسلہ نگاہوں کا
یہ خامشی کا فسانہ عجیب لگتا ہے
کبھی زمانے کی ہر شے سے پیار تھا مجھ کو
ترے بغیر زمانہ عجیب لگتا ہے
ہر ایک زخم مرا پھول بن گیا شاید
کہ اب بہار کا آنا عجیب لگتا ہے
کسی کے پیار کا شعلہ بجھا دیا تھا نگارؔ
وہ شعلہ پھر سے جلانا عجیب لگتا ہے

غزل
گزر گیا جو زمانہ عجیب لگتا ہے
نگار عظیم