EN हिंदी
گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں | شیح شیری
gurez-pa hai naya rasta kidhar jaen

غزل

گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں

جمال اویسی

;

گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں
چلو کہ لوٹ کے ہم اپنے اپنے گھر جائیں

نہ موج تند ہے کچھ ایسی جس سے کھیلیں ہم
چڑھے ہوئے ہیں جو دریا کہو اتر جائیں

عجب قرینے کے مجنوں ہیں ہم کہ رہتے ہیں چپ
نہ خاک دشت اڑائیں نہ اپنے گھر جائیں

جبیں ہے خاک سے ایسی لگی کہ اٹھتی نہیں
جنون سجدہ اگر ہو چکا تو مر جائیں

زمانہ تجھ سے یہ کہنا ہے مر چکے ہم لوگ
اب اپنی لاش ترے بازوؤں میں دھر جائیں

ہمیں بچے ہیں یہاں آخر الزماں لیکن
سبھوں کو اپنا تعارف دیں در بہ در جائیں